"آزادی" لیکن کس سے ؟عبدالرحمن حنفیصہیونیت کا ہتھیار پروپیگنڈہ اتنا خطرناک اور مہلک ہتھیار ہے کہ اس سے اقوام کے افکار اور اذہان کو غلام بنا لیا جاتا ہے اور لوگوں سے یہ صلاحیت چھین لی جاتی ہے کہ وہ حقائق کی جانچ اور پرکھ کر سکیں اور ان سے درست نتائج نکال کر صحیح طرز عمل اختیار کر سکیں ، اسی ہتھیار کو استعمال کرتے ہووے صہیونی دجالی طاقتیں ہمیں مرض کی اصل وجہ تک پہنچنے نہیں دیتیں جس تک پہنچ کر ہم مرض کے تدارک کا سامان کر سکیں ، ہم اگر برطانوی بادشاہت کی حقیقت تک پہنچیں تو ضرور یہ بات جان جائیں گے کہ ان کے پس پشت اصل حکمرانی صہیونی شیطانی طاقتوں کی ہی تھی آج بھی فرنگی کی بنائی گئی تعمیرات میں ہمیں صہیونیوں کے نشان اور علامتیں کثرت سے مل جائیں گی ، ہم یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ باطل کی بنیادی جنگ ہی دین اسلام اور اس کے نظام سے ہے یہی بات ہے کہ آج تک ہم اس بات کا تعین نہیں کر پا رہے ہیں کہ بنیادی خرابی اور غلطی کیا ہے جس کا خمیازہ ہم آج تک اٹھا رہے ہیں اور اس وقت تک ہم ان سرابوں میں بھٹکتے رہیں گے جب تک ہم اس حقیقت تک نہ پہنچیں کہ بحیثیت مسلمان ہمارے لیے آزادی کا حقیقی مفہوم کیا ہے اور غلامی کن معنوں میں غلامی سمجھی جاۓ گی....یہ بات تو بے شک زمینی حقیقت ہے کہ فرنگی برصغیر سے رخصت ہو گیا اور ہمیں ایک ریاست مملکت کا وجود دے گیا لیکن کیا اسی بات کو آزادی سمجھ لیا جاۓ کہ فرنگی ہم پر بحیثیت آقا کے حکمرانی کرنے کے لیے بذات خود موجود نہیں ہے ؟ ہرگز نہیں غلامی صرف یہ نہیں تھی کہ فرنگی ہم پر حکمرانی کرنے کے لیے موجود تھا بلکہ اصل غلامی یہ تھی کہ اس نے ہم پر اپنا نظام اور ریاستی انتظام و انصرام کے چلانے کے لیے ریاستی امور کے لیے اپنی مرضی کے قوانین اور طریقہ کار مسلط کیے ہووے تھے ، ہم ١٩٤٧ سے پہلے بھی فرنگی کے بذات خود جسمانی غلام نہیں تھے بل کہ اس کے نظام کی غلامی پر مجبور تھے اسی کی دی ہوئی لائن پر اپنے قوم و ملک کے اجتماعی معاملات چلانے کے پابند تھے اس کے بناۓ گئے نظام مملکت کے اصولوں کے تحت زندگی گزارنے کے پابند تھے اور اپنے اجتماعی معاملات اور مسائل کے حل کے لیے انہی قوانین سے رجوع کرنے کے پابند اور غلام تھے جو نظام اور قوانین فرنگی سامراج نے ہم پر مسلط کیے تھے ، یہی بنیادی حقیقت ہے جس کو سمجھے بغیر ہم سرابوں میں بھٹکتے ہی رہیں گے اور ہماری اس ذلت و پستی سے نکلنے کا کوئی سبب ہمارے ہاتھ نہ آئے گا...١٩٤٧ کے بعد بھی وہی نظام ہمارے اس ملک میں غالب ہے جو فرنگی سامراج اور صہیونیت کا پسندیدہ نظام ہے ، کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج ہندوستان اور پاکستان کے ریاستی نظام اور خطوط میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے اگر ہندوستان میں سودی نظام معیشت رائج ہے تو پاکستان میں بھی یہی نظام رائج ہے یہاں تک کہ دونوں مملکتوں کا انتظامی سیاسی معاشی ڈھانچہ ہوبہو ایک ہے اب آپ اس لسٹ میں بنگلہ دیش کو بھی شامل کر سکتے ہیں ، آپ صرف ہندوستانی فلم انڈسٹری بولی ووڈ اور پاکستانی فلم انڈسٹری لولی ووڈ کو ہی دیکھ لیجیے کیا ہندوستان اور پاکستان میں آپ کوئی فرق کر سکتے ہیں ؟ کیا ہمارے یہاں اسلامی اقدار کی سرپرستی کی جاتی ہے ؟ کیا جس طرح ہندوستان میں بے حیائی فحاشی اور عریانی پھیلا کر لوگوں کو بے راہ روی کی طرف مائل کیا جا رہا ہے بالکل اسی طرح ہمارے ملک میں بھی نہیں کیا جا رہا ؟ کیا ہماری داخلی اور خارجی پالیسیاں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ ہم ایک اسلامی ریاست ہیں اور اسلام اور امت مسلم کے نام لیوا ؟ ہمارےنظامکے خطوط ، وہی برطانوی طرز کی نوکر شاہی جس کا مقصد صرف دنیا کمانا ہوتا ہے گریڈوں کی ڈور ہوتی ہے جو ایمان کے بیوپاری اور پیسے کے پجاری ہوتے ہیں اور وہی لوگ اس نظام میں عہدے اور مناصب حاصل کرتے ہیں جو ذہنی و فکری طور پر کالے فرنگی ہوتے ہیں اور حکمران بھی اسی ذہنیت کے مارے ہمیں نصیب ہوتے ہیں (اگر بالفرض حکمران صحیح آ بھی جاۓ تو اس کا اس نظام کی ماتحتی میں ملک و قوم کی مجموعی اصلاح کرنا ممکن نہیں حالانکہ اس نظام کے زیر سایہ اچھا حکمران ملنا ناممکن ہے) پھر کیوں کہ ہمارا تعلیمی نظام ہی لارڈ مکالے کی دی ہوئی لائن پر بنایا گیا ہے جس نظام سے ایک سچے حقیقی اور فکری طور پر آزاد مسلمان کا جنم ناممکن ہے اس نظام سے جس قسم کے لوگ پیدا ہوتے ہیں ایسے لوگوں کے کوئی اخلاقی یا مذہبی اصول و اقدار نہیں ہوتے صرف دنیوی حرص و ہوس ہی ان کا مطمع نظر ہوتا ہے اور مقصد زندگی...ہم اپنے معاملات اور مسائل کے حل کے لیے اسی فرنگی طرز کے جوڈیشل سسٹم کے محتاج اور پابند ہیں جو ١٩٤٧ سے پہلے ہم پر مسلط تھا اور اس فرنگی جوڈیشل سسٹم کی تباہ کاریاں وہی سمجھ سکتا ہے جسے ان عدالتوں سے پالا پڑا ہو...ہماری مملکت کے تمام ادارے انہی خطوط پر قائم ہیں جن خطوط پر برطانوی سامراج کے دور میں قائم تھے یہاں تک کہ ہمارا نظام بھی انہی جمہوری اصولوں پر استوار ہے جو صہیونیت کا پسندیدہ ریاستی نظام ہے جب کہ اسلام نظریاتی طور پر ہی جمہوریت اور اس کے بنیادی اصولوں کا مخالف ہے آج اس جمہوریت کی حقیقت ہمارے سامنے واضح ہے جو پروپیگنڈہ مشینری استعمال کرتے ہووے جھوٹے وعدے اور دعوے کرتے ہووے اور اپنے تمام وسائل اور عالمی سامراج کی پشت پناہی سے صرف چوروں لٹیروں اور امت کے غداروں کو سامراج کے ایجنٹوں کو حق حکمرانی مہیا کرتی ہے یا ان کا غلبہ قائم و دائم رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور برطانوی درحقیقت صہیونی نظام کے زیر سایہ یہ جمہوریت بھی خود اسی نظام کی محافظ اور پشتیبان ہے ، کیا ہمارے اسی نظام نے تعصب و ناانصافی کی بنیاد پر ملک کے ٢ ٹکڑے نہ کیے ؟ اور یہی عمل اب بلوچستان اور ملک کے شمالی علاقوں میں نہیں دہرایا جا رہا ؟ اور دوسری طرف دیکھا جاۓ تو یہ نظام ملک کی اکثریت پر ظلم و ستم اور نا انصافی روا رکھتے ہووے مسلمانوں کو اسلامی نظام اور حقوق کے مطالبے پر کچلتے ہووے (جو کہ یہاں کے مسلمانوں کا بنیادی حق ہے کیوں کہ اسی لیے یہ ملک بنانے کا دعوی اور وعدہ کیا گیا تھا) اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے اور اقلیتوں کے لیے قانون سازی پر ہر وقت ہمارا یہ نظام تیار رہتا ہے کیا یہ مسلمانان پاکستان کے خلاف اس نظام کی کھلی جانبداری نہیں ہے...ملکہ ایلزبتھ کے دورہ پاکستان کے موقع پر صدر غلام اسحاق خان کا یہ بیان کہ "آپ آج بھی ہماری ملکہ ہیں" ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں ہے ؟ کیا ١٩٤٧ کے بعد ہمیں ایسا ملک ملا ہے جو ایک حقیقی اسلامی ریاست ہو اور اس کا کردار ادا کرتے ہووے امت مسلمہ کی محافظ اور پشتیبان ریاست کا کردار ادا کرے جو امت اور تمام اقوام عالم کے لیے مسیحائی کا نمونہ ہو ؟ حالاں کہ مسیحائی اور فلاح تو خود اس ملک کے عوام کو میسر نہیں، حقیقت تو یہی ہے کہ اسلامی ملک کا ملنا تو دور کی بات ہمیں ایک فلاحی ریاست دیکھنا بھی نصیب نہ ہوا ہماری عوام کی حالت زار آج اس کی عکاس ہے ، ہر طرف غربت و افلاس ہے لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں ، کمزور بےبس لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ، عوام کی جان و مال کی حفاظت جو ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے ریاست اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں ناکام ہے بل کہ ہمارا یہ نظام خود ملک و قوم کے اجتماعی مفادات کا دشمن ، قوم کو دن بہ دن غریب سے غریب کیا جا رہا ہے ملک کے اثاثے لوٹے جا رہے ہیں کاروبار تباہ کیا جا رہا ہے اور ملک کے حقیقی نظریاتی محافظوں سے جنگ کی جا رہی ہے اسلام کے نام لیواؤں پر قوم کے مسیحاؤں پر یہ زمین تنگ کی جا رہی ہے ، غرض یہ کہ اگر ہم نے اس حقیقت کا ادراک حاصل نہ کیا کہ آزادی ہمیں کس سے ملی فرنگی سے یا فرنگی کے نظام سے تب تک ہم نجات کی حقیقی منزل تک نہ پہنچ پائیں گے اور تب تک ہمیں ظالموں , لٹیروں اور سامراج کے غلاموں سے نجات نہ ملے گی چہرے بدلنے سے کچھ بھی نہ ہوگا جب تک ہمارا نظام مکمل طور پر تبدیل کر کے اسے اسلامی بنیادوں پر قائم نہ کیا جاۓ...
--
For University of Pakistan Study Material Sharing, Discussion, etc, Come and join us at http://4e542a34.linkbucks.com
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "Study" group.
To post to this group, send email to http://ca13054d.tinylinks.co
For more options, visit this group at
http://004bbb67.any.gs
For University of Pakistan Study Material Sharing, Discussion, etc, Come and join us at http://4e542a34.linkbucks.com
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "Study" group.
To post to this group, send email to http://ca13054d.tinylinks.co
For more options, visit this group at
http://004bbb67.any.gs
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.