2012/11/1 Muhammad Jahangir <jahangeermalik@yahoo.com>
بسم اللہ الرحمٰن الرحيم
السلام و عليکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ايسے لوگ
اب پھر کبھي لوٹ کر نہيں آئيں گے
نوٹ: اس ايميل کو پڑھتے ہوئے کسي لمحے آپکو اپني آنکھوں ميں نمي سي محسوس ہو تو جہاں اپني مغفرت کي دعاء کيجئے وہان اس خاکسار کو بھي ياد کر ليجيئے گا۔
دو نوجوان سيدنا عمر رضي اللہ عنہ کي محفل ميں داخل ہوتے ہي محفل ميں بيٹھے ايک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہيں اور اسکي طرف انگلي کر کے کہتے ہيں يا عمر ؓ يہ ہے وہ شخص!
سيدنا عمر ؓ ان سے پوچھتے ہيں ، کيا کيا ہے اس شخص نے؟
يا امير المؤمنين، اس نے ہمارے باپ کو قتل کيا ہے۔
کيا کہہ رہے ہو، اس نے تمہارے باپ کو قتل کيا ہے؟ سيدنا عمرؓ پوچھتے ہيں۔
سيدنا عمر ؓ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہيں، کيا تو نے ان کے باپ کو قتل کيا ہے؟
وہ شخص کہتا ہے : ہاں امير المؤمنين، مجھ سے قتل ہو گيا ہے انکا باپ۔
کس طرح قتل کيا ہے؟ سيدنا عمرؓ پوچھتے ہيں۔
يا عمرؓ، انکا باپ اپنے اونٹ سميت ميرے کھيت ميں داخل ہو گيا تھا، ميں نے منع کيا، باز نہيں آيا تو ميں نے ايک پتھر دے مارا۔ جو سيدھا اس کے سر ميں لگا اور وہ موقع پر مر گيا۔
پھر تو قصاص دينا پڑے گا، موت ہے اسکي سزا۔ سيدنا عمرؓ کہتے ہيں۔
نہ فيصلہ لکھنے کي ضرورت، اور فيصلہ بھي ايسا اٹل کہ جس پر کسي بحث و مباحثے کي بھي گنجائش نہيں، نہ ہي اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے ميں کوئي سوال کيا گيا ہے، نہ ہي يہ پوچھا گيا ہے کہ تعلق کسقدر شريف خاندان سے ہے، نہ ہي يہ پوچھنے کي ضرورت محسوس کي گئي ہے کي تعلق کسي معزز قبيلے سے تو نہيں، معاشرے ميں کيا رتبہ يا مقام ہے؟ ان سب باتوں سے بھلا سيدنا عمر ؓ کو مطلب ہي کيا ہے!! کيوں کہ معاملہ اللہ کے دين کا ہو تو عمر ؓ پر کوئي اثر انداز نہيں ہو سکتا اور نہ ہي کوئي اللہ کي شريعت کي تنفيذ کے معاملے پر عمرؓ کو روک سکتا ہے۔ حتي کہ سامنے عمرؓ کا اپنا بيٹا ہي کيوں نہ قاتل کي حيثيت سے آ کھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھي ليا جائے گا۔
وہ شخص کہتا ہے ا ے امير المؤمنين: اس کے نام پر جس کے حکم سے يہ زمين و آسمان قائم کھڑے ہيں مجھے صحراء ميں واپس اپني بيوي بچوں کے پاس جانے ديجيئے تاکہ ميں انکو بتا آؤں کہ ميں قتل کر ديا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور ميرے سوا کوئي آسرا نہيں ہے، ميں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا۔
سيدنا عمر ؓ کہتے ہيں: کون تيري ضمانتدے گا کہ تو صحراء ميں جا کر واپس بھي آ جائے گا؟
مجمع پر ايک خاموشي چھا جاتي ہے۔ کوئي بھي تو ايسا نہيں ہے جو اسکا نام تک بھي جانتا ہو۔ اسکے قبيلے، خيمےيا گھر وغيرہ کے بارے ميں جاننے کا معاملہ تو بعد کي بات ہے۔
کون ضمانت دے اسکي؟ کيا يہ دس درہم کے ادھار يا زمين کے ٹکڑے يا کسي اونٹ کے سودے کي ضمانت کا معاملہ ہے؟ ادھر تو ايک گردن کي ضمانت دينے کي بات ہے جسے تلوار سے اڑا ديا جانا ہے۔
اور کوئي ايسا بھي تو نہيں ہے جو اللہ کي شريعت کي تنفيذ کے معاملے پر عمرؓ سے اعتراض کرے، يا پھر اس شخص کي سفارش کيلئے ہي کھڑا ہو جائے۔ اور کوئي ہو بھي نہيں سکتا جو سفارشي بننے کي سوچ سکے۔
محفل ميں موجود صحابہ پر ايک خاموشي سي چھا گئي ہے، اس صورتحال سے خود عمر ؓ بھي متأثر ہيں۔ کيوں کہ اس شخص کي حالت نے سب کو ہي حيرت ميں ڈال کر رکھ ديا ہے۔ کيا اس شخص کو واقعي قصاص کے طور پر قتل کر ديا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کيلئے چھوڑ ديئے جائيں؟ يا پھر اسکو بغير ضمانتي کے واپس جانے ديا جائے؟ واپس نہ آيا تو مقتول کا خون رائيگاں جائے گا!
خود سيدنا عمرؓ سر جھکائے افسردہ بيٹھے ہيں ہيں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھري نظروں سے نوجوانوں کي طرف ديکھتے ہيں، معاف کر دو اس شخص کو۔
نہيں امير المؤمنين، جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ ديں، يہ تو ہو ہي نہيں سکتا، نوجوان اپنا آخري فيصلہ بغير کسي جھجھک کے سنا ديتے ہيں۔
عمرؓ ايک بار پھر مجمع کي طرف ديکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہيں ، اے لوگو ، ہے کوئي تم ميں سے جو اس کي ضمانت دے؟
ابو ذر غفاري ؓ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہيں ميں ضمانت ديتا ہوں اس شخص کي!
سيدنا عمرؓ کہتے ہيں ابوذر ، اس نے قتل کيا ہے۔
چاہے قتل ہي کيوں نہ کيا ہو، ابوذر ؓ اپنا اٹل فيصلہ سناتے ہيں۔
عمرؓ: جانتے ہو اسے؟
ابوذرؓ: نہيں جانتا اسے۔
عمرؓ: تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟
ابوذرؓ: ميں نے اس کے چہرے پر مومنوں کي صفات ديکھي ہيں، اور مجھے ايسا لگتا ہے يہ جھوٹ نہيں بول رہا، انشاء اللہ يہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔
عمرؓ: ابوذرؓ ديکھ لو اگر يہ تين دن ميں لوٹ کر نہ آيا تو مجھے تيري جدائي کا صدمہ ديکھنا پڑے گا۔
امير المؤمنين، پھر اللہ مالک ہے۔ ابوذر اپنے فيصلے پر ڈٹے ہوئے جواب ديتے ہيں۔
سيدنا عمرؓ سے تين دن کي مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، کچھ ضروري تياريوں کيلئے، بيوي بچوں کو الوداع کہنے، اپنے بعد اُن کے لئے کوئي راہ ديکھنے، اور اس کے قصاص کي ادئيگي کيلئے قتل کئے جانے کي غرض سے لوٹ کر واپس آنے کيلئے۔
اور پھر تين راتوں کے بعد، عمر ؓ بھلا کيسے اس امر کو بھلا پاتے، انہوں نے تو ايک ايک لمحہ گن کر کاٹا تھا، عصر کے وقت شہر ميں (الصلاۃ جامعہ) کي منادي پھر جاتي ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لينے کيلئے بے چين اور لوگوں کا مجمع اللہ کي شريعت کي تنفيذ ديکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے۔
ابو ذرؓ بھي تشريف لاتے ہيں اور آ کر عمرؓ کے سامنے بيٹھ جاتے ہيں۔
کدھر ہے وہ آدمي؟ سيدنا عمرؓ سوال کرتے ہيں۔
مجھے کوئي پتہ نہيں ہے يا امير المؤمنين، ابوذرؓ مختصر جواب ديتے ہيں۔
ابوذرؓ آسمان کي طرف ديکھتے ہيں جدھر سورج ڈوبنے کي جلدي ميں معمول سے سے زيادہ تيزي کے ساتھ جاتا دکھائي دے رہا ہے۔
محفل ميں ہو کا عالم ہے، اللہ کے سوا کوئي نہيں جانتا کہ آج کيا ہونے جا رہا ہے؟
يہ سچ ہے کہ ابوذرؓ سيدنا عمرؓ کے دل ميں بستے ہيں، عمرؓ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگيں تو عمرؓ دير نہ کريں کاٹ کر ابوذرؓ کے حوالے کر ديں، ليکن ادھر معاملہ شريعت کا ہے، اللہ کے احکامات کي بجا آوري کا ہے، کوئي کھيل تماشہ نہيں ہونے جا رہا، نہ ہي کسي کي حيثيت يا صلاحيت کي پيمائش ہو رہي ہے، حالات و واقعات کے مطابق نہيں اور نہ ہي زمان و مکان کو بيچ ميں لايا جانا ہے۔ قاتل نہيں آتا تو ضامن کي گردن جاتي نظر آ رہي ہے۔
مغرب سے چند لحظات پہلےوہ شخص آ جاتا ہے، بے ساختہ حضرت عمرؓ کے منہ سے اللہ اکبر کي صدا نکلتي ہے، ساتھ ہي مجمع بھي اللہ اکبر کا ايک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔
عمرؓ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہيں اے شخص، اگر تو لوٹ کر نہ بھي آتا تو ہم نے تيرا کيا کر لينا تھا، نہ ہي تو کوئي تيرا گھر جانتا تھا اور نہ ہي کوئي تيرا پتہ جانتا تھا!
امير المؤمنين، اللہ کي قسم، بات آپکي نہيں ہے بات اس ذات کي ہے جو سب ظاہر و پوشيدہ کے بارے ميں جانتا ہے، ديکھ ليجئے ميں آ گيا ہوں، اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کي طرح صحراء ميں تنہا چھوڑ کر، جدھر نہ درخت کا سايہ ہے اور نہ ہي پاني کا نام و نشان۔ ميں قتل کر ديئے جانے کيلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس يہ ڈر تھا کہيں کوئي يہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں ميں سے وعدوں کا ايفاء ہي اُٹھ گيا ہے۔
سيدنا عمرؓ نے ابوذر کي طرف رخ کر کے پوچھا ابوذرؓ، تو نے کس بنا پر اسکي ضمانت دے دي تھي؟
ابوذرؓ نے کہا، اے عمرؓ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہيں کوئي يہ نہ کہہ دے کہ ابلوگوں سے خير ہي اٹھا لي گئي ہے۔
سيد عمرؓ نے ايک لمحے کيلئے توقف کيا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کيا کہتے ہو اب؟
نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب ديا، اے امير المؤمنين، ہم اس کي صداقت کي وجہ سے اسے معاف کرتے ہيں، ہميں اس بات کا ڈر ہے کہ کہيں کوئي يہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں ميں سے عفو اور درگزر ہي اُٹھا ليا گيا ہے۔
سيدناؓ عمر اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو انکي ڈاڑھي کو تر کرتے نيچے گر رہے تھے۔۔۔۔
اے نوجوانو! تمہاري عفو و درگزر پر اللہ تمہيں جزائے خير دے۔
اے ابو ذرؓ! اللہ تجھے اس شخص کي مصيبت ميں مدد پر جزائے خير دے۔
اور اے شخص، اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خير دے۔
اور اے امير المؤمنين، اللہ تجھے تيرے عدل و رحمدلي پر جزائے خير دے۔
محدثين ميں سے ايک يوں کہتے ہيں، قسم ہے اس ذات کي جس کے قبضے ميں ميري جان ہے، اسلام اور ايمان کي سعادتيں تو عمرؓ کے کفن کے ساتھ ہي دفن ہو گئي تھيں۔
اور اے اللہ، جزائے خير دينا انکو بھي، جن کو يہ ايميل اچھي لگے اور وہ اسے آگے اپنے دوستوں کو بھيجيں ۔ آمين يا رب العالمين۔
For Virtual University of Pakistan Study Material Sharing, Discussion, etc, Come and join us at http://4e542a34.linkbucks.com
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "Virtual Position" group.
To post to this group, send email to virtualposition@googlegroups.com
For more options, visit this group at
http://004bbb67.any.gs
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.